123

راولپنڈی چیف ٹریفک پولیس آفیسر بیشن فاطمہ کیلئے وارڈن اہلکاروں کا عوام کے ساتھ رویہ وبال جان بن گیا

وارڈن اہلکاروں کے رویوں سے تنگ پبلک ریکوری سروس کی درجنوں کمپنیوں کی درخواست میں جرمانوں کو ٹارگٹ مکمل کرنے اور سیلری میں کمیشن بڑھانے کا نام دیدیا گیا

گاڑیوں کے تمام کا غذات مکمل ہونے اور عمر رسیدہ، لائسنس ہولڈر ڈروائیوں کے ساتھ غیر شائستہ انداز گفتگو اور مشکل سے لوگوں کو نکالنے کے انعام میں بھاری جرمانے، الزام عائد

درخواست گزاروں کی چیف ٹریفک پولیس آفیسر سے فوری اصلاح احوال کا مطالبہ اور مدد گار گاڑیوں کیلئے وقت کو مقرر کرنے کی التجا نے ٹریفک پولیس کی کار کردگی کا پول کھول دیا ہے

راولپنڈی (نامہ نگار خصوصی) راولپنڈی ٹریفک پویس کی جانب سے پبلک ریکوری سروس کی گاڑیوں کو بلا وجہ تنگ کیے جانے کے انکشاف نے چیف ٹریفک پولیس بینش فاطمہ کیلئے بڑے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں ہیں کیونکہ پہلے سے ہی روزانہ کی بنیادوں پر ملک کے کونے کونے سے ٹریفک پولیس کی جانب سے پاکستانیوں کے ساتھ استعمال کی جانے والی زبان اوررویہ سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کا سبب بنا ہوا ہے تو دوسری جانب اب میز بان شہر راولپنڈی کی مثالی ٹریفک پولیس کے خلاف بھی تحریری درخواستیں سامنے آنا شروع ہو گئیں ہیں۔ با اثر ذرائع نے انکشاف کیا ہے ٹریفک پولیس آفس میں سوشل میڈیا ایکٹو سٹوں کی مبینہ اجارہ داری کی وجہ سے چیف ٹریفک پولیس آفیسر کو سہانے خوابوں کی دنیاء دیکھائی جا رہی ہے جہاں ٹریفک کا نظام بہتر ہی بہترین بتایا جاتا ہے اور راولپنڈی ٹریفک پولیس کو ایک مثالی پولیس دیکھایا جاتا ہے جبکہ حقیقت موصول ہونے والی درخواست کے مطابق اس سے کوسوں دور ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر وارڈن اہلکاروں کی جانب سے شہریوں کے بلا وجہ چلان کیے جانے کی شکایات تو پہلے ہی زبان زد عام تھیں لیکن اب پبلک ریکوری سروس چلانے والی درجنوں کمپنیوں کی جانب سے چیف ٹریفک پولیس آفیسر بینش فاطمہ کو باقاعدہ طور پر تحریری درخواست دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا ہے کہ وارڈن پولیس اہلکار ریکوری سروس کی گاڑیوں کو بلا وجہ روک کر نا صرف ڈرائیووں سے غیر مہذب زبان کا استعمال کرتے ہیں بلکہ انکے تمام کا غذات مکمل ہونے کے با وجود بھی بھاری بھرکم جرمانے عائد کرتے ہیں جسکو درخواست گزاروں کی جانب سے شاید اپنے ٹارگٹ مکمل کرنے یا تنخواہوں میں جرمانوں کا کمیشن بڑھانے کی وجہ بتایا گیا ہے۔ درخواست کے متن کے مطابق درخواست گزاروں نے وضاحت کی ہے کہ انکی تمام گاڑیوں کو چلانے والے ڈرائیوانتہائی قابل، عمر رسیدہ، تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ لائیسنس ہولڈر ہیں اور ریکوری کے استعمال کی جانے والی تمام کمپنیوں کی گاڑیوں کے روٹ پرمٹ اور دیگر کاغذات کو مکمل ہونے کے با وجود بھی وارڈن پولیس اہلکان ان پر سوار ڈرائیوں سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے وہ پاکستان میں نہیں کسی دمشن ملک میں سفر کر رہے ہیں درخواست گزروں نے تحریری درخواست میں ٹریفک پولیس کے عملے کی وجہ سے درپیش مسائل کی شکایت کرتے ہوئے چیف ٹریفک پولیس آفیسر کو یاد دلایا ہے کہ انکی کمپنیاں حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر بھی سرکاری سطح پر کام کرتی ہیں اور جب کبھی بھی کسی بھی سرکاری گاڑی کو کسی جگہ منتقل کرنا ہوتا ہے یا ایسی جگہ جہاں کوئی پاکستانی مشکل میں پھنسا ہو اور وہاں سرکاری مدد گار گاڑیاں نہیں پہنچ سکتیں تو وہاں انہی کمپنیوں کے کو مشکل میں پھنسے پاکستانیوں میں ریسکیو کرنے کیلئے پکارا جاتا ہے اور اسکے انعام میں گزشتہ دو سال سے ٹریف پولیس کے عملے کی جانب سے اپنے سے عمر میں بڑے، لائسنس ہولڈر ڈارئیوں کے ساتھ ایسی زبان استعمال کی جا رہی ہے جوکہ اب نا قابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ درخواست گزراوں نے تحریری درخواست میں چیف ٹریفک پولیس آفیسر بنش فاطمہ سے رحم کی اپیل کرتے ہوئے پبلک سروس کمپنیوں کیلئے مسائل کو کم کرنے اور انکے لیے ایک وقت مخصوص کر نے کی التجاع کر دی ہے تاکہ وہ پریشانی میں پھنسے پاکستانیوں کو نکال سکیں۔ یاد رہے کہ درخواست کے متن کے مطابق دن ہو یا رات کسی بھی پہر جب وہ کسی خراب گاڑی کو رسکیو کرنے کیلئے آتے ہیں تو گاڑیوں کو ایسے روک لیا جاتا ہے جیسے وہ بارڈر کراس کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور سزا کے طور پر پہلے انکو غیر شائستہ زبان سننا پڑتی ہے تو اسکے بعد تحفے کے طور پر ہزاروں روپے کی چلان چٹیں تھما دی جاتی ہیں جو کہ مہنگائی کے اس دور میں انکا روز گار بند کرنے اور گھروں کے چولہے ٹھنڈے کروانے کا سبب بن سکتی ہے جس کی وجہ سے درجنوں کمپنیوں کے مالکان کی جانب سے چیف ٹریفک پولیس آفیسر بیشن فاطمہ کو فوری اس سنگین مسئلے کے حل کیلئے تحریری درخواست دیدی گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں