4

نفرت، نفرت کو کیوں جنم دیتی ہے؟

(جہانزیب خان کاکڑ)

صحت کی قدر اکثر بیماری کے بعد ہوتی ہے، اور امن کی اہمیت تب سمجھی جاتی ہے جب جنگ کی آگ چھو چکی ہو۔ ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں اگر بصیرت سے کام نہ لیا گیا تو آنے والے سال صرف مزید لاشیں، مزید بدامنی اور مزید نفرت چھوڑ جائیں گے۔

ایک پر امن ملک میں بیٹھ کر جب میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدہ فضا پر نظر ڈالتا ہوں، تو ایک طرف فخر ابھرتا ہے کہ پاکستان نے دنیا کی سب سے مشکل دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی۔ اور دوسری طرف ایک گہرا دکھ ہے کہ خطے کو ایک بار پھر ایسی جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے جس کا مرکز اب پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنا ہے۔

گزرے ادوار نے بارہا ثابت کیا ہے کہ بیرونی مداخلتیں اور داخلی انتہاپسندی نے ہمیشہ عوام کو ہی نقصان پہنچایا۔ افغانستان میں آج تک کوئی بھی قوت دیرپا امن یا ترقی کا ماڈل نہ دے سکی۔ جنہوں نے آ کر قبضہ کیا، وہ بربادی دے کر چلے گئے۔ آج جب چند گروہ پاکستان کے خلاف اسلحہ اٹھاتے ہیں، تو یہ نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ کس کے اشاروں پر چل رہے ہیں، اور کس کے مفادات کے لیے۔

پاکستان نے کئی دہائیوں تک ایک دوسرے ملک کے لاکھوں افراد کو نہ صرف پناہ دی، بلکہ ان کے لیے روزگار، تعلیم، علاج اور ایک محفوظ فضا بھی مہیا کی۔ لیکن آج وہی زمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ جب پاکستانی فوج پر حملے ہوں، جب بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں خون بہے، تو پاکستان کے پاس خاموش رہنے کا آپشن نہیں بچتا۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ کچھ جنگجو گروہ دانستہ یا نادانستہ طور پر اُن ایجنڈوں کا حصہ بن چکے ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان گروہوں کو کس کی سرپرستی حاصل ہے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بھارت کی پراکسی وار ہو یا دیگر طاقتوں کے تھنک ٹینکس کی پالیسیوں کے اثرات، اس خطے میں امن ہمیشہ بیرونی مداخلت کی نذر ہوتا رہا ہے۔

پاکستانی فوج پر تنقید کرنا آسان ہے۔ لیکن یہ وہی ادارہ ہے جس نے اپنی قوم کے لیے 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی۔ جنہوں نے القاعدہ، ٹی ٹی پی، اور درجنوں شدت پسند گروہوں کو زمین بوس کیا۔ اگر آج پاکستان اپنی سرحدوں کے دفاع میں سنجیدہ ہے، تو یہ جارحیت نہیں بلکہ مجبوری ہے۔

کیا ایک بار پھر وہی پرانا کھیل دہرایا جا رہا ہے، جہاں جنگ کی آگ کسی اور کی لگائی ہوئی ہو، اور نقصان صرف اس خطے کے عوام کا ہو؟ بندوق، شدت، ہجرت، اور بربادی کا بیانیہ اب پرانا ہو چکا ہے، لیکن کچھ قوتیں اسی بیانیے کو تازہ کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ وہ قوتیں نہ پاکستان کی خیر خواہ ہیں، نہ افغانستان کی۔

پاکستان نے اپنی دفاعی پالیسی میں واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ امن پسند ریاست ہے، لیکن اپنی بقا کی قیمت پر نہیں۔ دشمن کو پہچاننا وقت کی ضرورت ہے۔ آج جو لوگ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں، وہ صرف پاکستانی ریاست کے نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے بھی دشمن ہیں۔

ہم جو یورپ جیسے معاشروں میں بستے ہیں، یہ بخوبی جانتے ہیں کہ امن کسی نعمت سے کم نہیں۔ امن وہ بنیاد ہے جس پر ترقی، تعلیم، اور آزادی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اس امن کو اگر بار بار نشانہ بنایا جائے گا، تو دفاع کبھی خاموش نہیں رہے گا۔

اب فیصلہ ان لوگوں نے کرنا ہے جو افغانستان کی زمین پر بیٹھ کر جنگ کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ پاکستان صرف اپنی بقا کے لیے کھڑا ہے، کسی توسیع کے لیے نہیں۔ لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو جواب آئے گا، اور وہ فیصلہ کن ہو گا۔

نفرت ایک ایسا زہر ہے جو پھیلتا ہے، تو نسلیں نگل جاتا ہے۔ امن، محبت، اور حقیقت پسندی ہی وہ علاج ہیں جو ہمیں اس دائرے سے نکال سکتے ہیں۔ ورنہ تاریخ بار بار دہرائی جاتی رہے گی پہلے خالی ہاتھ، پھر خونی ہاتھ، اور آخر میں ٹوٹے ہوئے ملک۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں