6

عورتوں کے خلاف تشدد کی فعالیت کی سولہ روزہ مہم سے متعلق خصوصی مضمون:

تتلیوں کی قربانی بنی عورتوں کے حقوق کی ضامن۔
تحریر: افتخار رسول شیخ

دنیا بھر میں ہر سال 25 نومبر کو عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے عالمی سطح پر فعالیت کی سولہ روزہ مہم کا آغاز کیا جاتا ہے جس کے دوران عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انتہائی گرم جوشی اور مستعدی کے ساتھ آگاہی کے حوالے سے متعدد تقریبات اور سیمینار کا انعقاد کرتی ہیں۔ جن میں عورتوں پر تشدد کے خلاف ہر قسم کی روک تھام کرنے، عورتوں کے ساتھ صنفی امتیازات برتنے ، معاشرتی اور سماجی رویوں ، جبری کم عمری شادی ، تعلیمی سہولیات کی فراہمی کو نظر انداز کرنا، کارخانوں اور دیگر صنعتی اداروں میں صنفی بنیاد پر کم اجرت کا تعین کرنا ، عورتوں اور لڑکیوں کو معاشرے اور تعلیمی اداروں میں آن لائین (on line) ڈیجیٹل اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہراساں کرنے جیسی گھناؤنی حرکات کی روک تھام کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے۔ اس شعور کو اجاگر کرنے کے لئے ان تین تتلیوں کی قربانی کو یاد رکھنا ہو گا جنہوں نے ڈومینیکن ریپبلک کے ایک مطلق العنان جابر اور سفاک حکمران رافیل تروخیو

(Rafael Trujillo)
کے ظالمانہ قوانین اور عورتوں پر تشدد کے خلاف قانونی تحفظ کی عدم دستیابی کے خلاف ایک تحریک کی سرگرم تین بہنوں پیٹریا (Patria),
مینروا (Minerwa) اور ماریا ٹریسامیرابلا(Maria Teresa Mirabella) نے متحد ہوکر بٹر فلائی (Butterfly) یعنی تتلیوں کے فرضی نام سے زیر زمین سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا تقریباً 31 سال تک اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر کے عوام اور خاص طور پر عورتوں پر ظالمانہ قوانین مسلط کر کے ظلم و استبداد کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جاری رکھا ۔ اس سفاک ڈکٹیٹر کے اقتدار کا سورج 30 مئی 1961کو غروب ہو گیا جب ایک فوجی فائرنگ اسکواڈ نے تقریباً 50 ہزار افراد کے قاتل کو گولیوں سے اس کا جسم ٹھنڈا کر دیا۔ اس ظالم ڈکٹیٹر کا اقتدار تین بٹرفلائی بہنوں (تتلیوں) کے قتل کے چھ ماہ کے بعد ختم ہوگیا جن کو ہلاک کرنے کے لئے 25 نومبر 1960 کو اس نے خود حکم دیا تھا۔ بلآخر ریاستی تشدد کے ذریعے تین انقلابی تتلیوں کا ؛قتل عورتوں کے حقوق کی علامت اور ضامن بن گیا۔ ان تینوں بہنوں کے قتل کے بعد ان کی بے مثال قربانی کو یاد رکھنے کے لئے اقوام متحدہ نے ہر سال 25 نومبر کو عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ ان تین بہنوں کی قربانی عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کی ضامن بن کر آج دنیا بھر میں یاد کی جا رہی ہے۔
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ دنیا بھر میں عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان اور تشدد کی نت نئی اقسام کے اختراع نہیں سماج کے فکر اور سوچ کو اور زیادہ گہرا کر دیا۔ جس نے معاشرے کو یہ احساس دلایا کہ عالمی سطح پر شعور پیدا کیا جائے اور ایسی پالیسی سازی کی حوصلہ افزائی کی جائے جس سے عورتوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے رجحان پر قابو پایا جا سکے اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کی جانب پیش قدمی کی جائے تاکہ ایک مثبت اور تعمیری فکر اور سوچ پر مبنی قانون سازی کی جا سکے ۔ صنفی بنیاد پر تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان نے دنیا کی تمام مہذب قوموں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں ہر ملک کی غیر سرکاری تنظیمیں اپنے اپنے ملکوں کے قانون ساز اداروں پر زور ڈالتی ہیں کہ وہ ہر قسم کے سماجی، معاشرتی، سیاسی، معاشی، اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے کئیے جانے والے تشدد کے خلاف موثر قانون سازی کریں۔
ہر سال 25 نومبر سے صنفی تشدد کے خلاف شروع ہونے والی فعالیت کی سولہ روزہ مہم کو یادگار اور تاریخی بنانے کے لئے اس کے اختتام کی تاریخ 10 دسمبر منتخب کی ہے جب انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ اقوام متحدہ کا ادارہ صنفی تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کی مناسبت سے ہر سال ایک تھیم (بنیادی سوچ پر مبنی) موضوع دیتا ہے تاکہ تمام فریق اس پر سیر حاصل بحث کر کے موثر قانون سازی کر سکیں ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس سال کا تھیم موضوع ہے,
” متحد ہو جاؤ ! تمام خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ڈیجیٹل تشدد ختم کرو “۔ جہاں ایک طرف جدید ٹیکنالوجی نے نوح انسانی کو بے شمار سہولتوں سے مالا مال کیا ہے وہاں اس کے غلط استعمال بالخصوص ڈیجیٹل ایجادات نے معاشرے کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر رکھا جس کا زیادہ تر ہدف عورتیں ، لڑکیاں اور خاص طور پر تعلیمی اداروں کی طالبات ، خواندہ اور نیم خواندہ گھریلو خواتین جن کے پاس جدید قیمتی موبائل فون ہیں اور وہ ٹیکنیکل طور پر ان موبائل فونز کے استعمال میں پوری طرح واقف نہیں ہوتیں وہ بہت جلد ڈیجیٹل تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ کچھ ایسی ہی صورت حال دیہات کی عورتوں کو بھی درپیش ہے اور وہ اپنی کم علمی اور ٹیکنالوجی سے نا آشنائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار بن رہی ہیں ۔ لہذا موثر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات اور ڈیجیٹل بلیک میلنگ جیسے حادثات سے عورتوں اور لڑکیوں کو بچایا جا سکے۔۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ساتھ بچوں بچیوں کو بھی یہ احساس دلایا جائے کہ وہ تشدد کے لغوی معنوں کے ساتھ ساتھ اس کے اصل معنوں کو بھی سمجھ سکے تشدد کی بہت سی تعریفیں ہیں تاہم عالمی ادارہ سے اس کی یہ تعریف کے تشدد سے مراد زور/ قوت کا ارادی استعمال جبکہ تشدد کے معنوں کو اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو طاقت اور قوت کی بنیاد پر ایسے اقدامات ہیں جن کے تحت کسی دوسرے پر یعنی کمزور فریق پر ظلم و تشدد کر کے زخمی کرنا اپاہج بنا دینا تباہ و برباد کر دینا اور اپنے مطلب کو پورا کرنا یہ اشارے کنائے میں بھی ہے اور جسمانی اعضا کے مختلف نشاندہیوں سے بھی ایسا ممکن ہے تشدد صرف جسمانی نہیں یہ ذہنی بھی ہے اور کسی کی تصویر کو کسی غلط انداز میں کہیں استعمال کر کے وہ عورت ہو یا لڑکی، بچہ ہو یا مرد بالخصوص وہ کمزور طبقات سے وابستہ ہو اسے کسی نہ کسی انداز میں بلیک میل کر کے یا ذہنی اذیت پہنچا کے آپ تشدد کا راستہ اپناتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ تشدد کسی فرد کو جنس میں تمیز کر کے نہیں کیا جاتا بس تشدد صرف تشدد ہوتا ہے اس لیے آج کے اس دور میں صنفی بنیادوں پر تشدد کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل تشدد کی جو نئی لہر پیدا ہوئی ہے اس کی روک تھام کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو متحد ہو کر اور بالخصوص قانون سازی کرنے والے اداروں کو بھرپور طریقے سے اس میں اگے بڑھنا چاہیے اور ایک مضبوط موثر اور مثبت قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے، ##

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں