2

ریاست عوام کی فلاح کیلئے قانون سازی کرے

جہانزیب خان کاکڑ

قوانین ہمیشہ عوام کی سہولت اور تحفظ کے لیے ہوتے ہیں، نہ کہ عوام کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے۔ اگر پاکستان میں یورپی طرز کے قوانین بھی نافذ کرنے ہیں تو پھر یورپی طریقہ کار بھی سمجھنا ہوگا۔جہاں ایک ہی ملک کی ہر ریاست کے اپنے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ کیونکہ ریاست دیکھتی ہے کہ عوام کے ایشوز کیا ہیں ان کا حل کیا ہے وہاں کسی بھی قانون کو نافذ کرنے سے پہلے قانون بنایا جاتا ہے، اس کا عوامی سروے کیا جاتا ہے۔ نفاذ سے قبل قانون کا سماجی شعور اور معلومات مہیا کی جاتی ہیں پھر کہیں جا کر قانون نافذ ہوتاہے۔ اور یہاں پنجاب میں کارکردگی کی دوڑ میں راتوں رات قانون بنتا ہے اور علی الصبح اس پر عملدرآمد شروع ہوجاتا ہے۔ ایک دن میں ہزاروں طالب علموں، نوجوانوں، ملازمت پیشہ لڑکوں پر ٹریفک قوانین کے تحت مقدمات درج کر کے ہتھکڑیاں لگا دی گئی ہیں، جیسے انہوں نے کسی سنگین جرم کا ارتکاب کر دیا ہو۔ تعلیم اور روزگار ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کسی پر تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کرنا یا کسی کو بنا جرم سرزد ہوئے پابند سلاسل کرنا بذات خود ایک لاقانونیت ہے۔ قانون بنائے جاتے ہیں لیکن پہلے سے موجود قوانین کے برعکس کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ جرم اور قانون شکنی میں بھی فرق ہوتاہے۔ ٹریفک قوانین میں جرم تب بنتا ہے جب اس قانون شکنی سے کوئی مہلک یا غیر مہلک حادثہ ہوجائے تب ایف آئی آر اور گرفتاری بنتی ہے وگرنہ جرمانہ۔ یورپ میں تو فرد جرم عائد ہونے کے بعد گرفتاری ہوتی ہے۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں ادھر ایف آئی آر درج اْدھر گرفتاری چاہے بندہ بعد میں بے گناہ ثابت ہو جائے۔ یہ بناء جرم ثابت ہوئے کسی کی شخصی آزادی چھیننے کی لاقانونیت نہیں تو اور کیا ہے۔ پوری دنیا میں ایک ہی قانون ہے کہ جو جرم کرے گا وہی سزا پائے گا اور یہاں بڑھکیں ماری جا رہی ہیں کہ گھر بیٹھے والدین پر بھی مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا جائے گا جو ٹریفک قانون شکنی کے مرتکب بھی نہیں ہوئے۔ تو حضور والا پھر آپ کو موٹرسائیکل کا ڈرائیونگ لائسنس نہیں بلکہ اسلحہ لائسنس جاری کر کے وہیکل کو اسلحہ تصور کئے جانے کا قانون بھی پاس کرنا ہو گا جسے صرف وہی چلا سکے گا جس کے پاس موٹرسائیکل چلانے کا اسلحہ لائسنس ہو گا۔شاید کوئی جانوروں پر بھی وہ قوانین نہ بناتاہو جو اس ملک میں انسانوں پر بنائے جاتے ہیں۔آپ کو پتہ ہے جو نوجوان تین روز سے روزی کمانے نہیں جا سکے ان کے گھروں کے چولہے بند ہو گئے۔ آپ کی تو اندرون شہر کی سڑکیں ہی اس معیار کی نہیں جن پر تمام ٹریفک سگنلز کی لائینیں اور سائن ہوں۔پھر ساری گرفتاریاں شہروں کے اندر ناکے لگا کر کی گئیں۔بھلے لوکو آپ ٹریفک قوانین کی عملداری کراؤ اْن مین جی ٹی روڈ اور موٹر ویز پر جہاں ٹریفک قوانین کے مطابق سڑکیں موجود ہیں۔کم عمر ڈرائیور واقعی ہی بہت نقصان دہ ہیں جہاں دیکھیں ان کے خلاف فوری مناسب کارروائی کریں لیکن وہ بالغ نوجوان جو کسی دفتر فیکٹری کارخانے یا مارکیٹ میں ملازمت کے لیے جا رہے ان پر روزی کے دروازے بند کرنا کہاں کا قانون کہاں کا انصاف ہے۔پہلے ان کو لائسنس بنوانے اور ہیلمٹ خریدنے کے لیے ایک ماہ دیں۔ آپ پْلوں پر عوام کو چھتر مارنے والے نہیں بڑھا سکتے تو عوام کو چند منٹوں میں لائسنس اور ہیلمنٹ مہیا کرنے کا انتظام ہی کر دیں۔وہ طالب علم جو گھروں سے پڑھنے کے لیے نکلے یا اپنے بہن بھائیوں کو سکول کالج چھوڑنے جا رہے انہیں پابند سلاسل کرنا قانون نہیں قانون شکنی اور درندگی ہے جب آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے ملک میں جس پر ایک بار مقدمہ درج ہو جائے پھر اس کی باقی زندگی کا حشر کیا ہوتا ہے تو کس طرح سے آپ جرمانے کرنے کی بجائے ان پر مقدمات درج کر کے ہتھکڑیاں لگا رہے ہیں۔ یہاں تو ایک مقدمہ درج ہوتے ہی لوگ گھر سے باہر نہیں جا سکتے اور بے گناہ بھی ثابت ہو جائیں تو بھی کریمنل ریکارڈ گلے میں لٹکا رہتا ہے۔ ریاست شہریوں کی ماں ہوتی ہے قانوں بنانے ہیں تو عوام کی سہولت کے لیے بنائیں اور بے گناہ ثابت ہونے پر کریمنل ریکارڈ کا طوق عوام کے گلے سے ہٹانے کا قانون بنائیں۔ قانون بنائیں کہ آپ کی ریاست میں کوئی بھوکا نہ سوئے۔عوام کی زندگیاں آسان کریں۔ براہ کرم نظر ثانی کریں اپنے ان غیر انسانی ضابطوں پر تاکہ شہریوں اور دیہاتیوں کو محسوس ہو کہ ریاست واقعی ماں ہے کوئی رزق چھننے والی بلا نہیں۔ریاست پیٹرول بائیک بند کرنا چاہتی ہے تو لوگوں کو پیسے دے اور ضبط کر لے، چھین لینا تو کہیں کا قانون نہیں ہے۔ یہ بھی قانون ہے کہ کسی ایک جرم کی دو بار سزا نہیں دی جا سکتی۔ لہذا جب آپ تین بار ٹریفک شکنی پر کسی کو چالان کر چکے تو پھر اسی جرم میں وہیکل کیسے ضبط کر سکتے ہیں جبکہ چوتھی بار تو وہ جرم بھی سرزد نہیں ہوا۔ اسی طرح سے جب تک کسی پر ایف آئی آر درج نہ ہو گرفتار نہیں کیا جا سکتا تو ٹریفک پولیس نے کس طرح ہزاروں بچوں نوجوانوں کو سڑکوں سے حبس بے جا میں رکھ کر تھانوں میں بند کیا اور بعد میں مقدمات درج ہوئے۔ اس لاقانوعیت کی ایف آئی آر کا اندراج کس پر ہو گا اور کون کرے گا۔بھلے آپ کو عوام کی عدالت میں پیش نہ ہونا ہولیکن اللہ کی عدالت میں تو کسی بھی لمحے حاضری سر پر کھڑی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں