14

ٹریفک قوانین۔ مقصد سزا یا اصلاح؟

(جہانزیب خان کاکڑ)

پنجاب حکومت نے جب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں میں بھاری اضافہ اور ان پر سختی سے عمل درآمد شروع کیا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی طوفان آ گیا ہو۔ فوراً ایک شور اٹھا۔ ایسا شور جو اصلاح کے خلاف نہیں بلکہ اپنی برسوں پرانی عادتیں چھوڑنے کے خلاف تھا۔ ہم نے کبھی ٹریفک قوانین کو اپنی تہذیب، اپنی روزمرہ تربیت یا اپنی اجتماعی ذمہ داری کا حصہ سمجھا ہی نہیں۔ ہمارے لیے سڑکیں صرف گزرگاہ تھیں، مگر ان کے اصول زندگی کا تحفظ تھے، یہ احساس کبھی پیدا ہی نہ ہو سکا۔

ہماری شاہراہوں پر ہر کوئی خود کو فرمانروا سمجھتا ہے۔ اشارہ ایک مشورہ، لین ایک دھندلی لکیر، یوٹرن ہر جگہ جائز اور ہارن ایک دائمی جذباتی زبان ہے۔ سڑک پر پیدل چلنے والا بے بس کردار، سائیکل والا کسی اور زمانے کا باشندہ۔ نوجوان موٹرسائیکل سوار والدین کی غفلت کے سائے میں بغیر لائسنس اور بغیر ہیلمٹ زندگی کو رفتار کی دوڑ میں کھلونا بنا دیتے ہیں۔ کم عمر ڈرائیونگ کو بعض گھرانوں میں بہادری سمجھ لیا گیا ہے، اور یوں سڑکیں معاشرے کے مستقبل کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔

پھر وہ دھواں چھوڑتی گاڑیاں ہیں جن کا ہر سانس شہری فضا کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ پرانے بسیں، ویگنیں، ٹرک، جن کا دھواں سزا بن کر ناک اور پھیپھڑوں میں اترتا ہے۔ اور اس بدنظمی میں مزید بگاڑ پیدا کرتی ہیں وہ غیر منظور شدہ پھٹی موٹر سائیکلیں اور چنگچی رکشے، جو ٹریفک کے پورے نظام کو منتشر کر دیتی ہیں۔ یہ وقتی سہولت ضرور ہیں مگر ان کی بے ہنگم تعداد، غیر معیاری ساخت اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیور پورے شہری نظام کے لیے مستقل خطرہ بن چکے ہیں۔

اس بدنظمی کے مقابل جب آپ مہذب معاشروں کی سڑکوں پر کھڑے ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ قانون وہاں کوئی خارجی شے نہیں، بلکہ اندر کی تربیت ہے۔ لندن کی باریک گلیاں ہوں، جرمنی کے دیہات ہوں، نیدرلینڈز کے سائیکل سے بھرے راستے ہوں یا استنبول کی پرانی شاہراہیں۔ جہاں جگہ کم ہے مگر نظم زیادہ۔ وہاں ٹریفک دھیمی سانسوں کے ساتھ، مکمل تحمل اور باہمی احترام کے ساتھ بہتا ہے۔ کوئی ڈرائیور ہارن کو غصے کی زبان نہیں بناتا۔ گاڑیاں رک کر ایک دوسرے کو راستہ دیتی ہیں، اور لائٹ دبا کر شکریہ ادا کرتی ہیں۔ پیدل چلنے والا اور سائیکل سوار سڑک کے کنارے نہیں، سڑک کے نظام کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

ان کے ہاں بچے کم عمر میں ڈرائیونگ نہیں کرتے کیونکہ گھر والے جانتے ہیں کہ سڑک کھیل کا میدان نہیں۔ ہیلمٹ پولیس کے ڈر سے نہیں بلکہ زندگی کی عزت کے احساس سے پہنا جاتا ہے۔ وہاں کوئی دھواں چھوڑتی گاڑی سڑک پر موجود نہیں رہ سکتی کیونکہ معاشرہ اسے برداشت ہی نہیں کرتا۔ حکومت کو سختی نہیں کرنی پڑتی۔ عوام خود سخت اور ذمہ دار ہوتی ہے۔

اس کے مقابل ہم ہیں، جہاں قانون کو نافذ کرنے کی ذرا سی کوشش بھی طوفان بن جاتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت نے سختی دکھائی ہے تو اسے وقتی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر چند دن بعد نرمی آ گئی تو سب کچھ دوبارہ اسی اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔ ٹریفک کا نظم چند ہفتوں کی کارروائی سے نہیں، برسوں کی مستقل مزاجی سے آتا ہے۔ عوام کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ قانون دشمن نہیں، محافظ ہے۔ ہیلمٹ زندگی کا ساتھی ہے، دکھاوے کی رکاوٹ نہیں۔ لائسنس ڈرائیونگ کا حق ہے، کوئی غیر ضروری مرحلہ نہیں۔ کم عمر بچے کو موٹرسائیکل دینا غفلت ہے۔ محبت نہیں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑی صرف دھواں نہیں چھوڑتی، ہر سانس کو زہر کرتی ہے۔ اور غیر منظور شدہ گاڑیاں تیز رفتار موت کے برابر ہیں۔

تاہم حکومت کو یہ بھی جاننا ہو گا کہ مسئلے کا حل صرف چالان بڑھانا نہیں بلکہ طرزِ سفر بدلنا ہے چنگچی رکشوں اور غیر معیاری موٹر سائیکلوں کے خاتمے کا متبادل تبھی ممکن ہے جب شہریوں کو بہتر، سستی، محفوظ اور ہر وقت دستیاب پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ٹریفک کا نظام اسی وقت بہتر ہوا جب اس کے پیچھے ایک مضبوط عوامی ٹرانسپورٹ کھڑی تھی۔ اگر لاہور، ملتان، راولپنڈی، فیصل آباد اور دیگر بڑے شہروں میں جدید بس نیٹ ورک، وقت کی پابند شیڈولنگ، محفوظ اسٹیشنز اور قابلِ اعتماد ٹرانسپورٹ میسر ہو تو عوام خود بخود غیر معیاری سواریوں سے نجات پانا چاہیں گے۔ سڑکوں کا دباؤ کم ہو گا، حادثات گھٹیں گے اور شہر سانس لینا شروع کر دیں گے۔

اگر ہم نے اس بار اجتماعی نظم کو تسلیم کر لیا تو آنے والا وقت نہ صرف ہماری سڑکوں کا منظر بدل دے گا بلکہ ہمارے قومی رویوں میں بھی تہذیب اور ترتیب کا عکس ابھرے گا۔ یہ جرمانے وقتی نقصان نہیں بلکہ دائمی فائدے کا دروازہ بن سکتے ہیں۔ جب ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیں گے تو ہماری شاہراہیں بھی دنیا کے مہذب معاشروں کی طرح رواں، محفوظ اور انسانی احترام سے بھرپور ہو جائیں گی۔ شاید ایک دن ہم اپنے بچوں کو بتا سکیں کہ ہم نے بدنظمی کے سمندر سے نکل کر تہذیب کے کنارے قدم رکھا تھا۔ اور یہ سفر کسی بڑے فیصلہ سے نہیں، بلکہ ہیلمٹ پہننے، اپنی باری کا انتظار کرنے، اور قانون کو زندگی کا ساتھی سمجھنے سے شروع ہوا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں