
تحریر: محمد قیصر چوہان
آئی ایم ایف نے گزشتہ دنوں پاکستان کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں گورننس کی خرابیوں کے سلسلے میں بنیادی نوعیت کے مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان کے بقول پاکستان کی حکمرانی کے نظام میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور بدعنوانی ہے۔ اگر پاکستان نے کرپشن کے خاتمے میں بنیادی نوعیت کے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو معاشی ترقی کا عمل کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اس سے قبل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کی بیوروکریسی پر سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ نظام بہت بوسیدہ اور فرسودہ ہو چکا ہے اور اس کی موجودگی میں اگر پاکستان معیشت کی ترقی کا خواب دیکھتا ہے تو یہ محض خواب ہی بن کر رہ جائے گا پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہر حکومت اصلاحات کی بات کرتی ہے مگر اصلاحات کرتے وقت وہ اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے افراد یا پہلے سے طاقتور افراد کو مزید مضبوط بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں اصلاحات کا عمل کامیابی سے آگے نہیں بڑھ سکا اور اگر کہیں ہم نے داخلی اور خارجی مجبوریوں کی وجہ سے بہتر اصلاحات کیں بھی تو اس پر عمل درامد نہیں کیا گیا۔ ہمارا پورا حکومتی نظام کرپشن اور بدعنوانی کی بنیاد پر کھڑا ہے اور ہم نے اسے ایک بڑی مصلحت اور ضرورت کے تحت قبول کر لیا ہے۔ جب بھی کرپشن اور بدعنوانی کی بات کی جاتی ہے تو سیاسی جماعتیں اور حکومتیں سمجھتی ہیں کہ ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنا ہے حالانکہ دنیا بھر میں جمہوریت کی بنیادی کنجی شفافیت سے جڑی ہوئی ہے اور اگر نظام ہی شفاف نہ ہو تو پھر جمہوریت کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہوتا ۔لیکن ہمارے حکمران طبقات جمہوریت کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں اسی طرح شفافیت کے نظام کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنا ہمارے سیاست دانوں کی مجبوری بن گیا ہے۔ اگرچہ ہم نے ادارے تو بہت بنا لیے ہیں لیکن اداروں کو خود مختار کرنا اور ان میں شفافیت لانا ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عالمی ادارے مختلف شعبوں میں پاکستان کی درجہ بندی کرتے ہیں تو ہم بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کے الزام میں کئی بڑے سیاست دانوں پر مقدمات بنائے گئے یا ان کو جیلوں میں ڈالا گیا لیکن اس کا مقصد احتساب کرنا نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد بنا پر ان سے سیاسی ڈیل کرنا یا اپنے آپ کو تحفظ دینا تھا۔ مسئلہ محض سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اوپر سے لے کر نیچے تک سارا نظام ہی کرپشن کی نظر ہو گیا ہے اور ہر کوئی کرپشن کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ محض اوپر تک محدود نہیں رہا بلکہ نچلی سطح تک بھی لوگ کرپشن کو قبول کر چکے ہیں اور اسے کوئی جرم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔پاکستان میں جو جتنا بڑا کرپٹ ہے اسے اتنا ہی تحفظ دیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ کرپٹ لوگوں سے خود کو دور رکھتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے اور کرپشن اور بدعنوانی کو عملی طور پر سماجی تحفظ حاصل ہو گیا ہے۔
پاکستان کو دنیا سے جو امداد ملتی ہے آج تک اس کا کوئی حساب قوم کے سامنے پیش نہیں کیا گیا کہ حقیقت یہ ہے کہ بڑی طاقتیں یا طاقتور ممالک بھی کرپشن کو ہمارے جیسے ملکوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ ہم نے تو سیاست اور سیاسی نظام میں کرپشن کو رائج کیا ہے اور پورا سیاسی نظام کارپوریٹ نظام کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے۔ یعنی جو بھی فرد انفرادی سطح پر سیاست میں پیسہ لگاتا ہے اسی کو اقتدار کی سیاست میں حصہ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت کا یہ کھیل مجموعی طور پر روپے پیسے کا کھیل بن گیا سب سیاست کے نام پر پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کھیل میں ایک اور بڑا کردار کمزور عدالتی کا نظام ہے اور اس نظام نے ہمیشہ بڑی طاقتوں کے کہنے پر کرپٹ اور بدعنوانوں کو سیاسی تحفظ دیا ہے۔ ہمارا عدالتی نظام کرپشن اور بدعنوانی کو روکنے میں ناکام رہا ہے اور اب 27 ویں ترمیم کے بعد حکومتوں نے عدلیہ کو ایک ایسی نہج پہ پہنچا دیا ہے جہاں عدالتی احتساب عملاً ختم ہو کر رہ گیا ہے جس ملک میں عدالتی نظام خود مختار اور شفاف نہیں ہوگا وہاں کسی کا بھی احتساب ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اگر یہ عالمی مالیاتی ادارے کرپشن اور بدعنوانی کو ختم کرنا چاہتے ہیں یا حکمرانوں کو جواب دہ بنانا چاہتے ہیں تو ان کو پاکستان میں حکمرانوں کے بارے میں دوہرے معیارات کو ختم کرناہوگاکرپشن اوربدعنوانی کی سیاست کا خاتمہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم تضادات کی سیاست سے باہر نکلیں گے اور بلا تفریق احتساب کا نظام قائم کریں گے۔ محض طاقتور کو احتساب سے دور رکھنا اور کمزور کو احتساب کے نظام میں جکڑنا شفافیت کی عکاسی نہیں کرتا۔ پاکستان کے بیش تر بڑے بڑے کاروباری حضرات فوجی سربراہوں سے ملاقات میں برملا یہ کہتے ہیں کہ انہیں اس ملک میں ایف بی آر کا نظام قبول نہیں ہے کیونکہ اس نظام کی موجودگی میں کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ان کے بقول اگر ایف بی آر کا موجودہ نظام برقرار رہا تو نہ صرف کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس ملک میں کاروبار کرنا بھی ایک عذاب بن جائے گا ۔ ہمارے حکمراں طبقات ہمیشہ سے ایف بی آر میں اصلاحات کی بات کرتے ہیں مگر عملاً کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جس سے یہ ادارہ ایک بے لگام ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے
۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب ملک میں حکمرانی کا نظام خود شفافیت کے اصول پر پورا نہیں اترتا اور ہمارے حکمران طبقات خود کرپشن کی سیاست کرتے ہیں تو پھر باقی اداروں کی کرپشن کیسے ختم ہوگی۔ دنیا بھر میں گورننس کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے اصلاحات پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے مگر ہم ان اصلاحات کے نام پر مصنوعی انداز میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ ہم شفاف نظام کے حامی ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہم خود بھی شفافیت کے نظام پر یقین نہیں رکھتے اور ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو ہماری ذاتی ترقی اور خوشحالی کا سبب بن سکے۔ ہمارا طاقتور طبقہ یہ دلیل بھی دیتا ہے کہ آج کے سرمایہ دار نظام میں کرپشن اس کا لازمی حصہ بن چکا ہے اور ہمیں اس کو تسلیم کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر جتنے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ موثر ثابت نہیں ہو سکے۔