21

سیاستدانوں کی تا حیات نا اہلی کا کیس، تمام ایڈووکیٹ جنرلز کی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی حمایت

تاحیات نااہلی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا یا پارلیمنٹ کی قانون سازی؟ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہو گئی جسے براہِ راست نشر کیا جا رہا ہے۔

سماعت کے دوران تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے اٹارنی جنرل کے مؤقف اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کر دی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لاجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

لارجر بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز میں درخواست گزار امام بخش قیصرانی کے وکیل ثاقب جیلانی روسٹرم پر آ گئے۔

اٹارنی جنرل کی فیصلے کا دوبارہ جائزہ لینے کی استدعا

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تا حیات نا اہلی کی تشریح کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل! آپ کا مؤقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تا حیات نا اہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا ہوا قانون ہے۔

میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تا حیات نا اہلی کی مخالفت کر دی اور کہا کہ میں نے 2018ء میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تا حیات نا اہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل ہو چکی ہے، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پر تا حیات نا اہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟ تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت؟

تمام ایڈووکیٹ جنرلز کی الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی حمایت

اس موقع پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے اٹارنی جنرل کے مؤقف اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 میں فرق کیا ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت جبکہ 63 نا اہلی سے متعلق ہے۔

کسی کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 62 کی وہ ذیلی شقیں مشکل پیدا کرتی ہیں جو کردار کی اہلیت سے متعلق ہیں، کسی کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا اٹارنی جنرل اچھے کردار کے مالک ہیں؟ اس سوال کا جواب نہ دیجیے گا، صرف مثال کے لیے پوچھ رہا ہوں، سپورٹرز کہیں گے کہ آپ اعلیٰ کردار کے مالک ہیں جبکہ مخالفین بد ترین کردار کہیں گے، اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلیٰ کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جا سکتا، ہم تو گناہ گار ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ سے معافی مانگتے ہیں، آرٹیکل 62 میں نا اہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تا حیات نا اہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہو چکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔

’’کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد و بدل ممکن ہے؟‘‘

جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد و بدل ممکن ہے؟

میر بادشاہ قیصرانی کی تاحیات نااہلی کے کیس میں نوٹس لیا گیا

سپریم کورٹ نے میر بادشاہ قیصرانی کی جعلی ڈگری پر تاحیات نا اہلی کیس میں نوٹس لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے11 دسمبر کو نا اہلی کی مدت سے متعلق تمام مقدمات ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا تھا۔

عدالتِ عظمیٰ نے کیس کے زیرِ التوا ہونے کو الیکشن میں تاخیر کے لیے استعمال نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے تا حیات نا اہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیا تھا۔

عدالتِ عظمیٰ نے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں