جدت سے بھر پور ٹیکنالوجی دنیا کا نقشہ بدلنے میںنہ صرف اہم کردار ادا کررہی ہیں بلکہ لوگوں کو حیرانی میں بھی مبتلا کررہی ہیں ۔ایسی ایسی ایجادات منظر ِعام پر آرہی ہیں ،جن کے بارے میں کبھی سوچابھی نہیں تھا ۔ان جدید ٹیکنالوجیز میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے ۔
کینسر کی ابتدائی تشخیص… ڈرامائی ترقی
ہر سال 80 لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری کے ساتھ اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ اس وقت شناخت ہوتا ہے جب یہ کافی بڑھ چکا ہوتا ہے پھیپھڑے کے کینسرمیں رسولی (ٹیومر) اس وقت نظر آتی ہے جب اس کا سائز کرکٹ کی گیند کے برابر ہو چکا ہوتا ہے۔ صحت کے حوالے سے معمولی اسکریننگ میں ابتدائی کینسر کا پتا لگانا مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی دیر سے تشخیص مرض کوپیچیدہ کر چکی ہوتی ہے اور اس کا علاج کافی دشوار ہوجاتا ہے ۔ Nottingham (UK) اور کنساس (امریکا) کے سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے 15 سال کی تحقیق کے بعد کینسر کی تشخیص کے لیے ایک سادہ سا خون کا ٹیسٹ تیار کیا ہے، جس کو اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔
اس نئی ٹیکنالوجی میں کینسر کی پہلی مالیکیولی علامت کا سراغ لگانا شامل ہے جب کینسر کے خلیات بننا شروع ہوتے ہیں تو بعض مخصوص پروٹین (Antigens)پیدا ہوتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کو تیز کر دیتے ہیں اوراینٹی باڈیز کی تشکیل کے ذریعے ردعمل دیتے ہیں۔
تیا رکیا گیا خون کا ٹیسٹ اس کو دریافت کرے گا اور سائنس دانوں کو بالکل درست Antigens اور اس سے منسلک اینٹی باڈیزکی شناخت میں مدد ملے گی، جس کے ذریعے زیر تشکیل کینسر کی رسولی کی قسم کی شناخت ہو سکے گی۔ یہ کام مریض کے صر ف10 mlخون سے ہو سکے گا جو کہ معمول کے ٹیسٹ میں شامل ہو گا۔اس کے ذریعے کینسر کا سراغ ابتدائی اسٹیج پر لگا لیا جائے گا جو کہ عام طو رپر قابل علاج مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیسٹ پائلٹ مطالعہ میں پھیپھڑے کے کینسر کے مریضوں کے علاج میں ڈرامائی بہتری اور 90فی صد دوسرے ٹھوس کینسر میں اہم پیش رفت کا حامل رہا ہے۔
فالج (Stroke)کا ویکیوم کے ذریعے علاج
دل کی بیماریوں کے بعد فالج دنیا بھر میں اموات کا دوسرا بڑا سبب ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والی10فی صد اموات فالج کی وجہ سے ہوتی ہیں جو کہ دماغ کو خون کی فراہمی میں رکاوٹ کی وجہ سے واقع ہوتا ہے۔ یہ رکاوٹ خون میں لوتھڑوں کے بننے(Clot Formation)یا پھر خون کی شریان پھٹنے،جسے ہیمبرج کہا جاتا ہے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ 80 فی صد اسٹروک( (Ischemic Stroke ہوتے ہیں، جس میں دماغ میں لوتھڑا Clot بن جاتا ہے۔ اسٹروک کے علاج کے لیے ایک نیا طریقہ کار تیار کیا جا رہا ہے، جس میںbased technique vaccumکا استعمال کیا جائے گا۔
اس طریقہ کار میں خون کی شریانوں سے لوتھڑےکو باہر نکال دیا جائے گا۔ اس طریقے کا اطلاق اسٹروک کے چند گھنٹے کے اندر کیا جائے گا ،تا کہ دماغ کو خون کی سپلائی کو فوری بحال کر کے دماغ کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔ اس ٹیکنالوجی کو ایک کمپنی Penumbra نے تیار کیا ہے، جس میں مریض کی خون کی شریانوں میں رانوں کے درمیان جگہ میں کیتھڈرل ڈالی جاتی ہے۔
یہ کیتھڈرل گردن تک لے جائی جاتی ہے اور پھر اس میں سے ایک اور چھوٹی کیتھڈرل نمودار ہوتی ہے اور اس کو دماغ کے متاثرہ حصے تک پہنچا کر ویکیومVaccumکا استعمال کیا جاتا ہے اور پھر لوتھڑے کو اس کے ذریعے باہر کھینچ لیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کا استعمال کرتے ہوئے اب تک 72مریضوں کی زندگی بچائی جا چکی ہے۔ یہ کارنامہ Seaman MR Research Center یونیورسٹی آف کیلگری کینیڈا میں انجام دیا گیا ہے۔ تاہم، یہ صرف بڑےاسٹروک کی صورت میں کارآمد ہے نیزاس کو کامیابی سے استعمال کرنے کے لیے مناسب تربیت کی بھی ضرورت ہو گی۔
ذیابطیس مریضوں کے لیےنینو پارٹیکل ویکسین
ہر 400 بچوں میں سے ایک بچہ ذیابطیس قسم اول کا شکار ہے، جس کو Juvenile Diabateseیا بچوں کا ذیابطیس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب خون کے سفید ذرّات بکھرجاتے ہیں اورلبلبے میں انسولین پیدا کرنے والے ذرّات پر حملہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان بچوں کے خون اور یورین میں گلوکوز کی سطح بڑھ جاتی ہے اور اگر انسولین سے علاج نہ کیاجائے تو صورت حال جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
چناں چہ ایسے مریضوں کو مستقل انسولین دینی پڑتی ہے کیوں کہ اس کا اس کے علاوہ کوئی علاج نہیں ہے،مگر اب یونیورسٹی آف کانگری البرٹا کینیڈا جولیا میک فارلینس ذیابطیس ریسرچ سینٹر میں کام کرنے والے محققین کے کام سے اُمید کی کرن نمودار ہوئی ہے، اس تحقیقی گروپ نے قسم اول ذیابطیس کا شکارچوہوں کا نینوپارٹیکل ویکسین سے کامیاب علاج کیا ۔اس میں ایسے ذرّات کا استعمال کیا گیا جو کہ خلیات کے مقابلے میں ہزاروں گنا چھوٹے تھے۔
ان ذرّات پر بعض مخصوص پروٹینی حصوں (پیپٹائڈ) کا غلاف چڑھایا گیاتھاجو کہ ذیابیطس قسم اول کے کیے مخصوص ہے۔ اس طریقہ کار کا ایک فائدہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے لبلبے میں انسولین پیدا کرنے والے خلیات پر حملہ کرنے کے رجحان کو مدافعتی نظام کے ذریعے پلٹ دیا گیا۔ جب کہ اس سے مدافعتی نظام پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوا جو کہ مختلف بیماریاں پید اکرنے والے جراثیم اور وائرس سے جنگ کے لیے ضرور ی ہے۔ اس حوالے سے ایک بایو ٹیکنالوجی کمپنی نئی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے، تا کہ اس کو تجارتی پیمانے پر پیش کیا جا سکے۔
DNAٹیسٹنگ … چند گھنٹوں میں
گزشتہ صدی کے ابتدائی نصف سے مجرموں کی شناخت کے لیے انگلیوں کے نشانات کے بعد ڈی این اے ٹیسٹنگ کا طریقہ دریافت ہوا ہے۔ جائے وقوع سے نمونے حاصل کرنے کے بعد لیبارٹری میں لے جانے اور شناخت کے عمل کے مکمل ہونے میں دو ہفتے کا وقت لگ جاتا ہے جب کہ اکثر جینیاتی ٹیسٹ24 سے 27 گھنٹے لیتے ہیں ۔ چناں چہ تیز رفتاری سے انجام دیے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے۔
ایری زونا میں واقع یونیورسٹی آف کینساس نے برطانیہ کی فورنسک سائنس سروس کے ساتھ مل کر نئی چپ تیار کی ہے جو کہ4گھنٹے کے اندر نتائج تیار کر دیتی ہے۔کوشش کی جارہی ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں مزید بہتری لا کر ٹیسٹ میں لگنے والے وقت کو کم کرکے 2گھنٹے کر دیا جائے۔ یہ ٹیکنالوجی جلد ہی تجارتی پیمانے پر پیش کر دی جائے گی۔
نینو فائبر گولیوں کی مدد سے نرم ہڈیوں کا علاج
Cartilage یا نرم ہڈیوں میں آنے والے زخموں کا علاج مشکل ہوتا ہے ان کو عام طور پر خود ہی ٹھیک ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اگرنئی بننے والی ہڈی صحیح طور سے نہ بنے تویہ عمل بہتر ثابت نہیں ہوتا، یعنی اگر وہ اسی شکل میں نہ بنے یا اس طرح کام نہ کرے جس طرح پہلے والی ہڈی انجام دیتی تھی تو یہ کام اسی طرح انجام نہیں دے پاتی ہے۔ اکثر زخم بھرنے کے عمل کو شروع کرنے کے لیے مریض کے اپنے خلیات انجکشن کی مدد سے ہموار اندازسے داخل کردیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ان خلیات کو زخم کے گرد ہموار انداز سے داخل نہ کیا جائے تویہ طریقہ قابل اطمینان نہیں ہوتا۔
یونیورسٹی آف مشی گن، امریکا کے سائنس دانوں نے ایک چھوٹا سا گولہ تیار کیا ہے جو ایک خاص ریشے (فائبر) سے بنتا ہے، یہ مریض کے خلیات کو انجکشن کے ذریعے داخل کر کے بالکل ہموار انداز میں پھیلا دیتا ہے۔ اس نینو گولے کے اندر غذائیت بھی بند ہوتی ہے جو زخم کے بھرنے کے عمل کو تیز کرتی ہے یہ چھوٹی سی گول شے ایسے مادے سے تیار کی جاتی ہے جو ازخود انحطاط پذیر ہے یہ کوئی مضر اثرات مرتب کیے بغیر خود گھل جاتی ہے۔جدید نینو ٹیکنالوجی ہر انسانی میدان میں ہزاروں لاکھوں اطلاقات کی حامل ہے۔
ٹارچ کی مدد سے بیکٹیریا کو تباہ کرنا
Huazhongیونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے CSIRO میٹریل سائنس اینڈ انجینئرنگ یونیورسٹی آف سڈنی اور دی سٹی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کے اشتراک سے ایک اچھوتی پلازما فلیش لائٹ تیار کی ہے جو کہ بیکٹیریا کو فوری طور پر ہلاک کردیتی ہے۔
ایک چھوٹے سے 21وولٹ کی ڈگری طاقت حاصل کرنے والی یہ لائٹ 32ڈگری سیلسیس پر پلازما کے Plumخارج کیے جاتے ہیں جو کہ ہماری جلد کے لیے بالکل محفوظ ہیں اور یہ بیکٹیریا کو ہلاک کردیتے ہیں۔ یہ فلیش لائٹ جس میکنزم پر کام کرتی ہے، اس کے بارے میں بالکل درست اطلاعات معلوم نہیں ہیں۔ تاہم، یہ کمزور بالائے بنفشی UVروشنی خارج کرتی ہے جو غالباً اس کی سرگرمی یا اردگرد کے ماحول سے بیکٹیریا کو ہلاک کرنے والے اثرات کا ذمہ دار ہے۔
سانس کے تجزیے سے بیماریوں کی تشخیص
مستقبل میں ڈاکٹرز ایک چھوٹی سی تھرمامیٹر جیسے آلہ کی مدد سے آپ کی سانس کا تجزیہ کرسکیں گے اور آپ جس بیماری کا شکار ہیں۔ اس کے بارے میں معلومات فراہم کرسکیں گے۔ اب تک اس کے ذریعےسانس کے تجزیے سے یہ معلوم کرنا ممکن ہوچکا ہے کہ کوئی شخص الکوحل سے کس حد تک Intoxicated ہے۔ اب اس ٹیکنالوجی کو کینسر، ذیابیطس اور انفیکشن والی بیماریوں کی تشخیص کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ یہ کام اس حقیقت کو استعمال کرتے ہوئے کیا گیا ہے کہ مختلف بیماریوں کا شکار افراد کا میٹابول یا تحولی نمونہ مختلف ہوتا ہے۔
چنانچہ کسی خاص بیماری کا شکارفرد کو خاص مرکب مثلاً شکر جس میں کاربن کا خاص آئسوٹوپ ہوتاہے۔ کھلایا یا انجیکشن کے ذریعے دیا جاتا ہے اور پھر سانس سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈمیں اس آئسوٹوپ کی سطح کا تجزیہ کرکے مخصوص بیماری کی شناخت کی جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف ونسکوسن میڈی سن کے محققین ایک ٹیکنالوجی کی تیاری پر کام کررہے ہیں، جس کی مدد سے ہاتھ میں آجانے والا Metabolic Breath Analyzer تیار کرلیا جائے گا۔ یہ طبی معالجین کے لیے ایک اہم آلہ ہوگا۔
کینسر کے خلاف جنگ… سونے کے نینو اسٹار
کسی بھی مادّے کا سائز جب نینومیٹر کی حد تک کم کردیا جاتا ہے تو ان کی خاص خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ ان مواد کی غیرمعمولی خصوصیات کے نتیجے میں نینو ٹیکنالوجی کا میدان تخلیقی مواد ہے جو کہ موجودہ دور کی سائنس و ٹیکنالوجی کا اہم ترین میدان ہے۔
ایک نینومیٹر ایک میٹر کا ایک ارب واں حصہ ہے (یا ملی میٹر کا دس لاکھواں)ا ور نینوٹیکنالوجی میں ایک ایسا مواد شامل ہے، جس کا سائز 100نینو میٹر (nm) کے برابر ہوتا ہے۔ اس میں شامل اسکیل کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ DNA کے ڈبل ہیلکس کا قطر2nmہوتا ہے جب کہ زندگی کی مختصر ترین خلوی شکل جو کہ جنسMycoplasmکا بیکٹیریا ہے، کی لمبائی 200nmہے۔
کینسر کے مریضوں کا کیموتھراپی سے علاج میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دوا عام صحت مند خلیات پر بھی حملہ آور ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کے شدید مضراثرات( Side Effects )سامنے آتے ہیں۔ سائنس دان ایسے طریقے تلاش کررہے ہیں جن کے ذریعے کینسر کے خلیات کو منتخب طور پر ہدف بنایا جائے تاکہ “Shotgun” کا طریقہ کار اختیار کیا جاسکے ،جس میں یہ کینسر کے خلیات کے ساتھ نارمل صحت مند خلیات کو بھی تیار کرتی ہے۔
اگر صرف ہدف کا نشانہ بنایا جائے تو استعمال کی جانے والی دوا کی مقدار میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی، کیوں کہ دوا کی معمولی سی مقدار کینسر کے خلیات کو نشانہ بنائے گی اوراس کے ساتھ مضر ضمی اثرات سے بھی محفوظ رہیں گے۔ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے سونے کے نینو اسٹارز تیار کیے ہیں جو کہ صرف کینسر کے خلیات کے نیوکلیس کو ہدف بنائیں گے۔
یہ دوا کینسر کے خلیات کے خلاف استعمال ہوگی جو کہ ستارے کی شکل کے سونے کے نینو اسٹارز سے منسلک ہوں گے۔ ان نینو اسٹارز کے اندر صرف کینسر کی دوا بھری ہوگی جو کینسر کے خلیات کی سطح پر موجود پروٹین پرلگادی جائے گی۔ یہ پروٹین ایک چھوٹی شٹل سروس کی طرح کام کرتے ہوئے نینو اسٹار کو خلیے کے نیوکلیئس تک پہنچادے گی اور پھر صرف کینسر کے خلیات ہلاک کردیے جائیں گے۔
سیاہ مادّہ اور توانائی کو دریافت کرنے کے لئے تیز رفتار کمپیوٹرز
IBMاور Alamos National Los لیبارٹری کے اشتراک سے دنیا کے تیز رفتار ترین کمپیوٹر ”RoadRunner“ تیار کرلئے گئے ہیں۔ اس کے اندر ایک سیکنڈ میں ایک ہزار بلین پروگرام چلانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کو امریکی نیوکلئیر پروگرام، کائنات کے سربستہ راز معلوم کرنےGenomicsاور موسمی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔یہ 6000 مربع فیٹ کی جگہ گھیرتا ہے اور اس میں 10,000کنکشنز ہیں ،جس میں 75 کلو میٹر طویل آپٹک فائبر نصب کیے گئے ہیں ۔جب کہ اس کی 8 ٹیرا بائٹ میموری کا وزن 50,0000 پاؤنڈ ہے۔
کائنات کی صرف 6.4فی صد کمیت نظر آنے والے مادّے جو کہ جوہر سے بنی ہیں پر مشتمل ہے۔ جب کہ 32فی صد مادّہ Dark Matterہے جو کہ غیر مرئی ہے لیکن اس کی موجودگی کی تصدیق کہکشاؤں کی حرکت سے ہوتی ہے کائنات کا بقیہ37فی صد اس سے بھی زیادہ پر اسرار شے پر مشتمل ہے، جس کو Dark Energyکہا جا تا ہے۔ یہ کائنات کا سب سے عظیم سر بستہ راز ہے۔اگر چہ کہ Dark Matterکو براہ راست نہیں دیکھا جا سکتا،مگر کہکشاؤں کے مجموعے جس گرفت میں محسوس ہوتے ہیں ۔اس سے ان کی موجود گی کا احساس بخوبی ہو جا تا ہے۔
سیاہ توانائی یا Dark Energyکائنات کی وسعتوں میں تیز رفتار اضافے کی بھی ذمہ دار محسوس ہوتی ہے۔Road Runnerمیں حساب کے لئے جو بنیادی یونٹ استعمال کیا جا تا ہے وہ بلین سو رجوں کی کمیت کے برابر ذرّہ ہے۔ اس قدر بڑے یونٹ کی ضرورت اس لئے پیش آئی ،کیوںکہ کہکشاؤں کا جو ماڈل بنا یا جا رہا ہے، اس کی کمیت ٹریلین سور جوں کے برابر ہے۔یہ کمپیوٹر کائنات کی جہتوں کی نقل تیار کرنے کے لئے 64ملین یا اس سے زائد ”بلین سورج“ کے ذرّات کا استعمال کرتا ہے۔یہ اعدادو شمار اور حساب کتاب حقیقت میں دماغ کو چکرا کر رکھ دیتے ہیں۔