32

’’نظام شمسی‘‘ ایک لامتناہی تخیل

’’نظام شمسی‘‘ ایک لامتناہی تخیل

سائنس اور اہل سائنس کا سائنسی شعور اور تحقیق و جستجو سے پوشیدہ فلکی نظام کی بعض حقیقت کسی حد تک اُجاگر ہوئی ہے جو ہنوز جاری ہے کہ سیّارے، چاند اور ملین کے قریب دُم دار ستارے اورسیّارچے ایک پیچیدہ مداروں کی صورت میں سُورج کے گرد ہمہ وقت گردش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گرد و غبار کے دانوں کی کثیر مقدار، گیس کے سالمات اور ایٹمی ذرّات بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان تمام اجرام فلکی میں کم سے کم ایک چیز قدرِ مشترک ہے۔ یعنی تمام فلکی اجسام سُورج کے گرد ایک طاقت ور قوت کشش اور بندش کے تابع ہوتی ہیں۔ سُورج اور تمام اجرام فلکی اسی قوت کی وجہ سے اپنی اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہیں، جس کی وجہ سے ایک کائناتی سسٹم وجود میں آیا جسے ’’نظام شمسی‘‘ کہتے ہیں ،جس کا ہر ممبر سُورج کے گرد ایک مخصوص مدار کا اَٹوٹ اَنگ ہوتا ہے۔

یہ مدار سُورج کے چھریرا توازن کشش (Delicate Gravitational Force) جو اجرام فلکی کو اندرونی جانب دھکیلتا ہے اور جسم کا اپنا جمود (جو فلکی اجسام کو باہر خلاء میں پھینکنا چاہتا ہے) کے درمیان ہوتا ہے۔ خلاء میں موجود ہر وہ جسم جو الگ الگ مخصوص مدار میں کسی بڑے جسم کے گرد گھوم رہا ہے وہ ذیلی ماتحت سیّارہ ’’سیٹلائٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس حوالے سے زمین ایک ماتحت سیّارہ ہے جو سُورج کے گرد 66,600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہی ہے۔ یہ تیز رفتاری زمین کو سُورج کے اندر گرنے نہیں دیتی بلکہ زمین اور سُورج کے درمیان اوسط فاصلہ تقریباً 93 ملین میل برقرار رہتاہے۔ نظام ِشمسی کے دُوسرے ممبران کا اپنا انفرادی مدار ہوتا ہے ،جس کا سُورج سے دُوری کا تعین خاص رفتار اور فاصلہ سے کیا جاتا ہے۔ 

علاوہ ازیں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ شمسی نظام میں مداروں کی تعداد اور اقسام فلکی اجسام کا ایک دُوسرے سے باہم تصادم کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ یہ ایک ایسی فکرانگیز تصور ہے جو کئی صدیوں سے انسانی ذہن کو متاثر کر رہا ہے، جس کے بارے میں ٹھوس دلائل سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظام شمسی کی تخلیق آج بھی مفروضہ کے طور پر برقرار ہے لیکن اب تک کی تحقیق اور فلکی معلومات کے حوالے سے کچھ ممکنات سامنے آئی ہیں، جس کی روشنی میں ’’نظام شمسی‘‘ کی تخلیق کے کچھ پہلوئوں کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔عام طور پر تصادم کے حوالے سے یہ معلومات سامنے آتی ہیں کہ ستارے ایک دُوسرے سے بہت پرے اور الگ الگ پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ 

یہاں تک کہ ایک ہی ’’گلیکسی‘‘ میں بھی ان کی دُوری برقرار رہتی ہے۔ لہٰذا ان کے تصادم کا امکانبہت ہی کم تصور کیا جاتا ہے لیکن 1749ء میں شکاگو یونیورسٹی کے ماہر فلکیات کے حوالے سے سُورج اور دُوسرے اجرام فلکی کے درمیان تصادم سے متعلق سائنسی حلقوں میں ایک مفروضہ کی بازگشت دُور دُور تک سُنائی دینے لگی جسے ’’پلینی ٹیسیمل‘‘ (planetesimals) مفروضہ کا نام دیا گیا۔ اس مفروضہ کے حوالے سے اس انکشاف کو فروغ حاصل ہونے لگا کہ مادّے کی بہت بڑی مقدار سُورج سے اس وقت باہر نکل گئی جب سُورج کا تصادم دُوسرے ستاروں سے ہو رہا تھا۔ گرم اجزاء سرد ہو کر چھوٹے اجسام (planetesimals) میں تبدیل ہوگئے اور پھر یہ بتدریج ایک دُوسرے سے جوڑنے لگے اور یوں سیّاروں نے جنم لیا۔ 

ایک عرصے تک یہ مفروضہ ردّوبدل کے بعد اپنی جگہ برقرار رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ تصوّر غلط اور غیرمقبول ہوتا گیا، کیوں کہ اس میں ایک ہی پہلو سامنے آ رہا تھا کہ مادّے دیگر ستاروں کی قوت کشش کی وجہ سے سُورج سے الگ ہوگئے جو ایک دُوسرے کے قریب تو آئے لیکن ان میں تصادم نہیں ہوا، کیوں کہ تمام دلائل سے یہ حقیقت واضح ہوتی گئی کہ مادّے سُورج یا جس ستارے سے دستیاب ہوئے وہ گیس کی شکل میں تھے اور یہ ٹھوس ہونے سے پہلے فضاء میں بکھر گئے ،جس کی بنیاد پر یہ مفروضہ غیرمقبول ہوتا گیا۔ 1755ء میں جرمن فلاسفر ’’کانٹ‘‘ نے نظام شمسی کے حوالے سے ایک اور مفروضہ متعارف کراتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھاکہ خلاء میں گیس کے بادل گردش کر رہے تھے وہ دراصل ’’نیبولا‘‘ (Nebula) تھا جو اپنے اپنے محور اور ایک ہی سمت میں گھوم رہا تھا۔ 

اس سے پہلے یہ خیال تھا کہ آج سے پندرہ ارب سال پہلے ایک لامتناہی خلاء ضرور موجود تھی، جس کا شاید انسانی تخیّل احاطہ نہیں کر سکتا۔ اس خلاء میں سردخاک اور گیس کے غبار یا گولے ہمہ وقت گردش کر رہے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ ذرّات ایک دُوسرے سے قریب آتے گئے اور پھر ایک بہت بڑی گردش کرتی ہوئی طشتری وجود میں آ گئی۔ اسی کو ’’نیبولا‘‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن 1796ء میں ایک ریاضی داں ،لیپ لس نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اس مفروضہ میں ریاضی کے حوالے سے کوئی تجزیاتی معلومات نہیں۔ اسی وجہ سے ریاضی کے ماہر نے طبیعیات کے قانون ’’قانون بقائے زاویائی مومینٹم‘‘ کی روشنی میں اس مفروضہ کو مزید بہتر بنا کر پیش کیا اور اس حقیقت کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی کہ جب ’’نیبولا‘‘ اپنے اطراف قوت کشش کے زیراثر مختصر ہو کر سکڑتا گیا، جس کی وجہ سے اس کے گردش کرنے کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ 

طبیعیات کے ’’قانون بقائے زاویائی مومینٹم‘‘ کی رُو سے زاویائی مومینٹم یعنی ایم وی آر (MVR) کی قیمت ہمیشہ مستقل ہوتی ہے۔ اگر آر (R.) یعنی مدار کے قطر کی قیمت میں سکڑائو کی وجہ سے کمی واقع ہو جائے تو گردشی ولاسٹی میں تناسب کے اعتبار سے اضافہ ہو جاتا ہے ،چناں چہ اس قانون کی رُو سے ’’نیبولا‘‘ کا بیرونی حصہ نہایت تیزی سے گردش کرنے لگا۔ نتیجے میں گیس اور دُھوئیں کے یہ چھلّے یا طشتری سکڑتی ہوئی ’’نیبولا‘‘ کے جسم سے الگ ہو کر بکھر گئے، پھر یہ گرم گیس کے دھوئیں کے چھلے سُست رفتاری کے ساتھ ٹھنڈے اور کثیف ہوتے گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مختلف سیّاروں اور سیارچوں میں تقسیم ہو کر ایک مدار میں الگ الگ گردش کرنے لگے، جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے۔ 

سیّارہ زمین کا بیرونی حصہ رفتہ رفتہ سرد ہوتا گیا لیکن اس کا مرکز آج بھی گرم ہے جو پگھلے ہوئے لوہے، نکل اور دُوسری دھاتوں کا ایک گرم آمیزہ ہے۔نظام شمسی کے بارے میں جدید تحقیقی حوالے سے جون 1977ء میں ’’ناسا‘‘ اور نیو میکسیکو یونیورسٹی کے ماہر فلکیات نے خلاء میں ’’نیبولا‘‘ کے اطراف فلکی مشاہدات سے یہ معلومات اخذ کی ہے کہ یہاں پر موجود مادّے 99 فی صد گیس اور ایک فی صدگرد و غبار پر مشتمل پائے گئے ہیں۔ گیس زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیم ہوتے ہیں۔ گرد و غبار کی جسامت کی ترکیبی اسی طرح پائی گئی ہے ،جس طرح براعظمی اجزاء ہوتے ہیں۔ 

مثلاً سلیکون مرکبات، آئرن آکسائیڈ اور کئی چھوٹے سالماتی اجزاء بشمول نامیاتی اشیاء۔ جہاں تک حالیہ نظریۂ نظام شمسی کا تعلق ہے تو یہ بھی 1796ء کے نظریہ کی تصدیق کرتا ہے کہ گردش کرتے ہوئے گیس کے بادل اور گرد و غبار جس کی شکل اور اندرونی حرکت ثقلی قوت کے تابع ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات کشش ثقل غالب ہو جاتا ہے اور سکڑائو کا عمل وقوع پذیر ہوتا، جس کی وجہ سے گردش میں تیزی آ جاتی ہے جو ’’قانون بقائے زاویائی مومینٹم‘‘ کا مظہر ہوتا ہے۔ اسی دوران حرارتی سالماتی تعامل بھی ہوتا رہتا ہے،جس کے نتیجہ میں ہائیڈروجن مرکزہ شدید دبائو کے ماتحت ’’ہیلیم‘‘ مرکزہ میں تبدیل ہو جاتا ہے جو توانائی کے وافر مقدار کے اخراج کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔

علاوہ ازیں زمینی چٹان، چاند سے حاصل چٹانی نمونوں اور شہاب ثاقب جو زمین پر خلاء سے شامل ہوتے ہیں۔ عام طور پر اس میں کم و بیش 90 فی صد چار عناصر پائے جاتے ہیں یعنی آئرن، آکسیجن، سلیکان اور میگنیشیم، جب کہ سُورج مکمل طور پر99 فی صدہائیڈروجن اور ہیلیم پایا گیا۔ اس طرح نظام شمسی میں جتنے بھی اجسام فلکی شامل ہیں سُورج ان کو حرارتی سالماتی تعامل کے ذریعہ توانائی، روشنی اور حرارت مہیا کرتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بے کیف زمین کو پُرکیف بنا دیتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں